Saturday 9 March 2013

اے عشق کہیں لے چل

0 comments
اے عشق کہیں لے چل 
اے عشق کہیں لے چل، اس پاپ کی بستی سے 
نفرت گہِ عالم سے، لعنت گہِ ہستی سے 
ان نفس پرستوں سے، اِس نفس پرستی سے 
دُور اور کہیں لے چل 
اے عشق کہیں لے چل 
ہم پریم پُجاری ہیں، تُو پریم کنہیّا ہے 
تُو پریم کنہیّا ہے، یہ پریم کی نیّا ہے 
یہ پریم کی نیّا ہے، تُو اِس کا کھویّا ہے 
کچھ فکر نہیں لے چل 
اے عشق کہیں لے چل 
بے رحم زمانے کو، اب چھوڑ رہے ہیں ہم 
بے درد عزیزوں سے، منہ موڑ رہے ہیں ہم 
جو آس کہ تھی وہ بھی، اب توڑ رہے ہیں ہم 
بس تاب نہیں لے چل 
اے عشق کہیں لے چل 
یہ جبر کدہ آزاد افکار کا دشمن ہے 
ارمانوں کا قاتل ہے، امّیدوں کا رہزن ہے 
جذبات کا مقتل ہے، جذبات کا مدفن ہے 
چل یاں سے کہیں لے چل 
اے عشق کہیں لے چل 
آپس میں چھل اور دھوکے، سنسار کی ریتیں ہیں 
اس پاپ کی نگری میں، اجڑی ہوئی پریتیں ہیں 
یاں نیائے کی ہاریں ہیں، انیائے کی جیتیں ہیں 
سکھ چین نہیں لے چل 
اے عشق کہیں لے چل 
اک مذبحِ جذبات و افکار ہے یہ دنیا 
اک مسکنِ اشرار و آزار ہے یہ دنیا 
اک مقتلِ احرار و ابرار ہے یہ دنیا 
دور اس سے کہیں لے چل 
اے عشق کہیں لے چل 
یہ درد بھری دنیا، بستی ہے گناہوں کی 
دل چاک اُمیدوں کی، سفّاک نگاہوں کی 
ظلموں کی جفاؤں کی، آہوں کی کراہوں کی 
ہیں غم سے حزیں لے چل 
اے عشق کہیں لے چل 
آنکھوں میں سمائی ہے، اک خواب نما دنیا 
تاروں کی طرح روشن، مہتاب نما دنیا 
جنّت کی طرح رنگیں، شاداب نما دنیا 
للہ وہیں لے چل 
اے عشق کہیں لے چل 
وہ تیر ہو ساگر کی، رُت چھائی ہو پھاگن کی 
پھولوں سے مہکتی ہوِ پُروائی گھنے بَن کی 
یا آٹھ پہر جس میں، جھڑ بدلی ہو ساون کی 
جی بس میں نہیں لے چل 
اے عشق کہیں لے چل 
قدرت ہو حمایت پر، ہمدرد ہو قسمت بھی 
سلمٰی بھی ہو پہلو میں، سلمٰی کی محبّت بھی 
ہر شے سے فراغت ہو، اور تیری عنایت بھی 
اے طفلِ حسیں لے چل 
اے عشق کہیں لے چل 
اے عشق ہمیں لے چل، اک نور کی وادی میں 
اک خواب کی دنیا میں، اک طُور کی وادی میں 
حوروں کے خیالاتِ مسرور کی وادی میں 
تا خلدِ بریں لے چل 
اے عشق کہیں لے چل 
سنسار کے اس پار اک اس طرح کی بستی ہو 
جو صدیوں سے انساں کی صورت کو ترستی ہو 
اور جس کے نظاروں پر تنہائی برستی ہو 
یوں ہو تو وہیں لے چل 
اے عشق کہیں لے چل 
مغرب کی ہواؤں سے، آواز سی آتی ہے 
اور ہم کو سمندر کے، اُس پار بلاتی ہے 
شاید کوئی تنہائی کا دیس بتاتی ہے 
چل اس کے قریں لے چل 
اے عشق کہیں لے چل 
اک ایسی فضا جس تک، غم کی نہ رسائی ہو 
دنیا کی ہوا جس میں، صدیوں سے نہ آئی ہو 
اے عشق جہاں تُو ہو، اور تیری خدائی ہو 
اے عشق وہیں لے چل 
اے عشق کہیں لے چل 
اک ایسی جگہ جس میں، انسان نہ بستے ہوں 
یہ مکر و جفا پیشہ، حیوان نہ بستے ہوں 
انساں کی قبا میں یہ شیطان نہ بستے ہوں 
تو خوف نہیں لے چل 
اے عشق کہیں لے چل 
برسات کی متوالی، گھنگھور گھٹاؤں میں 
کہسار کے دامن کی، مستانہ ہواؤں میں 
یا چاندنی راتوں کی شفّاف فضاؤں میں 
اے زہرہ جبیں لے چل 
اے عشق کہیں لے چل 
ان چاند ستاروں کے، بکھرے ہوئے شہروں میں 
ان نور کی کرنوں کی ٹھہری ہوئی نہروں میں 
ٹھہری ہوئی نہروں میں، سوئی ہوئی لہروں میں 
اے خضرِ حسیں لے چل 
اے عشق کہیں لے چل


شاعر اختر شیرانی

اے عشق ہمیں برباد نہ کر

0 comments
اے عشق نہ  چھیڑ آ آ کے ہمیں، ہم  بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر 
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم ، تو  اور ہمیں ناشاد نہ کر 
قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ ، یہ تازہ ستم  ایجاد نہ  کر

یوں ظلم نہ کر، بیداد  نہ کر 
اے عشق ہمیں برباد نہ  کر

جس دن سے  ملے  ہیں  دونوں  کا، سب  چین گیا، آرام گیا 
چہروں سے بہار صبح گئی، آنکھوں سے فروغ شام گیا 
ہاتھوں سے خوشی کا جام چھٹا، ہونٹوں سے ہنسی  کا نام گیا

غمگیں نہ بنا،  ناشاد  نہ  کر 
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے ہیں، رو رو کے دعائیں کر تے ہیں 
آنکھوں میں تصور، دل میں خلش، سر دھنتے ہیں آہیں بھرتےہیں 
اے عشق! یہ کیسا روگ لگا، جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں؟

یہ ظلم تو اے جلاد نہ کر 
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

یہ روگ لگا ہے جب  سے  ہمیں، رنجیدہ ہوں میں بیمار ہے وہ 
ہر وقت تپش، ہر  وقت  خلش بے خواب ہوں میں،بیدار ہے وہ 
جینے سے  ادھر بیزار ہوں میں،  مرنے  پہ ادھر تیار ہے وہ

اور ضبط  کہے  فریاد نہ کر 
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

جس دن سے بندھا  ہے دھیان ترا، گھبرائےہوئے سے رہتے ہیں 
ہر وقت تصور کر  کر  کے شرمائے  ہوئے  سے رہتے  ہیں 
کملائے ہوئے پھولوں  کی طرح  کملائے ہوئے سے رہتے ہیں

پامال  نہ کر، برباد نہ  کر 
اے عشق  ہمیں  برباد نہ کر

بیددر!  ذرا  انصاف تو  کر! اس عمر میں اور مغموم  ہے وہ 
پھولوں کی طرح نازک ہے ابھی ، تاروں  کی طرح معصوم ہے وہ 
یہ حسن ، ستم! یہ رنج، غضب! مجبور ہوں میں! مظلوم ہے وہ

مظلوم  پہ  یوں  بیداد  نہ  کر 
اے عشق ہمیں  برباد نہ کر

اے  عشق خدارا دیکھ کہیں ، وہ شوخ حزیں بدنام نہ ہو 
وہ ماہ لقا بدنام نہ  ہو، وہ  زہرہ جبیں بدنام نہ  ہو 
ناموس کا اس  کے  پاس  رہے،  وہ پردہ نشیں  بدنام نہ ہو

اس پردہ نشیں کو یاد نہ کر 
اے عشق ہمیں برباد  نہ  کر

امید کی جھوٹی جنت کے، رہ  رہ  کے  نہ  دکھلا خواب ہمیں 
آئندہ کی فرضی عشرت  کے، وعدوں  سے نہ کر بیتاب  ہمیں 
کہتا ہے  زمانہ  جس کو خوشی ، آتی  ہے نظر کمیاب ہمیں

چھوڑ ایسی خوشی کویادنہ کر 
اے  عشق  ہمیں برباد نہ کر

کیا سمجھےتھےاور تو کیا نکلا، یہ سوچ کے ہی حیران ہیں ہم 
ہے پہلے  پہل کا  تجربہ  اور کم عمر ہیں ہم،  انجان ہیں ہم 
اے عشق ! خدارا رحم و کرم! معصوم ہیں ہم، نادان ہیں ہم

نادان  ہیں  ہم، ناشاد نہ  کر 
اے عشق ہمیں برباد  نہ کر

وہ راز ہے یہ غم آہ جسے، پا  جائے کوئی تو خیر نہیں 
آنکھوں سےجب آنسو بہتے ہیں، آجائے کوئی تو خیر نہیں 
ظالم ہے یہ  دنیا، دل کو یہاں، بھا جائے کوئی تو  خیر نہیں

ہے ظلم مگر  فریاد  نہ  کر 
اے عشق ہمیں بر باد نہ کر

دو دن  ہی میں عہد طفلی  کے، معصوم زمانے بھول گئے 
آنکھوں سےوہ خوشیاں مٹ سی گئیں، لب کووہ ترانےبھول گئے 
ان  پاک بہشتی خوابوں  کے،  دلچسپ فسانے بھول گئے

ان خوابوں سے یوں آزادنہ کر 
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

اس جان حیا  کا بس نہیں کچھ، بے بس ہے پرائے بس میں ہے 
بے درد دلوں کو کیا ہے خبر، جو  پیار  یہاں آپس میں ہے 
ہے  بے بسی زہر  اور  پیار ہے  رس، یہ زہر چھپا اس رس میں ہے

کہتی ہے حیا  فریاد  نہ  کر 
اے عشق ہمیں  برباد نہ کر

آنکھوں کو  یہ  کیا آزار ہوا ، ہر  جذب نہاں پر رو دینا 
آہنگ  طرب پر جھک جانا، آواز فغاں  پر  رو دینا 
بربط کی صدا پر رو دینا، مطرب کے  بیاں پر رو دینا

احساس کو غم بنیاد نہ کر 
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

ہر دم ابدی راحت  کا سماں  دکھلا کے ہمیں دلگیر نہ کر 
للہ حباب  آب رواں  پر  نقش بقا تحریر نہ  کر 
مایوسی کے رمتے بادل  پر  امید کے گھر تعمیر نہ  کر

تعمیر نہ کر، آباد نہ کر 
اے عشق ہمیں بر باد نہ کر

جی چاہتا ہے اک دوسرے کو  یوں  آٹھ  پہر ہم  یاد  کریں 
آنکھوں  میں  بسائیں خوابوں کو، اور دل میں خیال آباد کریں 
خلوت میں بھی ہوجلوت کاسماں، وحدت کودوئی سےشادکریں

یہ آرزوئیں ایجاد نہ کر 
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

دنیا کا  تماشا  دیکھ  لیا، غمگین  سی ہے ، بے  تاب سی ہے 
امید یہا ں اک وہم سی ہے‘ تسکین یہاں اک خواب  سی ہے 
دنیا میں خوشی کا نام نہیں‘ دنیا میں خوشی نایاب  سی ہے

دنیا میں خوشی کو یاد نہ کر 
اے عشق ہمیں  برباد نہ کر


شاعر اختر شیرانی

وہ کہتے ہيں رنجش کي باتيں بھُلا ديں

0 comments
وہ کہتے ہيں رنجش کي باتيں بھُلا ديں 
محبت کريں، خوش رہيں، مسکراديں 
غرور اور ہمارا غرور محبت 
مہ و مہر کو ان کے در پر جھکا ديں 
جواني ہوگر جاوداني تو يا رب 
تري سادہ دنيا کو جنت بناديں 
شب وصل کي بےخودي چھارہي ہے 
کہوتو ستاروں کي شمعيں بجھاديں 
بہاريں سمٹ آئيں کِھل جائيں کلياں 
جو ہم تم چمن ميں کبھي مسکراديں 
وہ آئيں گے آج اے بہار محبت 
ستاروں کے بستر پر کلياں بچھاديں 
بناتا ہے منہ تلخئ مے سے زاہد 
تجھے باغ رضواں سے کوثر منگا ديں 
تم افسانہ قيس کيا پوچھتے ہو 
آؤ ہم تم کوليليٰ بنا ديں 
انہيں اپني صورت پہ يوں کب تھا 
مرے عشق رسوا کو اختر دعا ديں


شاعر اختر شیرانی

جب ترا حکم ملا ترک محبّت کر دی

0 comments
جب ترا حکم ملا ترک محبّت کر دی 
دل مگر اس پہ دھڑکا کہ قیامت کر دی 
تجھ سے کس طرح میں اظہار محبّت کرتا 
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی 
میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے 
تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی 
مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ پیار آتا ہے 
تری الفت نے محبت مری عادت کر دی 
پوچھ بیٹھا ہوں تجھ سے ترے کوچے کا پتہ 
تیرے حالات نے کیسی تیری حالت کر دی 
کیا ترا جسم تیرے حسن کی حدّت میں جلا 
راکھ کس نے تری سونے کی سی رنگت کر دی


شاعر احمد ندیم قاسمی

خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے

0 comments
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو

خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو

ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو


شاعر احمد ندیم قاسمی

گُل ترا رنگ چرا لائے ہیں گلزاروں میں

0 comments
گُل ترا رنگ چرا لائے ہیں گلزاروں میں
جل رہا ہوں بھری برسات کی بوچھاروں میں

مجھ سے کترا کے نکل جا مگر اے جانِ جہاں!
دل کی لَو دیکھ رہا ہوں ترے رخساروں میں

مجھ کو نفرت سے نہیں پیار سے مصلوب کرو
میں بھی شامل ہوں محبت کے گنہ گاروں میں

حُسن بیگانۂ احساسِ جمال اچھا ہے
غنچے کھِلتے ہیں تو بِک جاتے ہیں بازاروں میں

ذکر کرتے ہیں ترا مجھ سے بعنوانِ جفا
چارہ گر پھول پرو لائے ہیں تلواروں میں

میرے کِیسے میں تو اک سُوت کی انٹی بھی نہ تھی
نام لکھوا دیا یوسف کے خریداروں میں

رُت بدلتی ہے تو معیار بدل جاتے ہیں
بلبلیں خار لیے پھرتی ہیں منقاروں میں

چُن لے بازارِ ہنر سے کوئی بہروپ ندیم
اب تو فنکار بھی شامل ہیں اداکاروں میں


شاعر احمد ندیم قاسمی

کہاں ڈھونڈیں اسے کیسے بلائیں

0 comments
کہاں ڈھونڈیں اسے کیسے بلائیں 
یہاں اپنی بھی آوازیں نہ آئیں 
پرانا چاند ڈوبا جا رہا ہے 
وہ اب کوئی نیا جادو جگائیں 
اب ایسا ہی زمانہ آ رہا ہے 
عجب کیا وہ تو آئیں، ہم نہ آئیں 
ہوا چلتی ہے پچھلے موسموں کی 
صدا آتی ہے ان کو بھول جائیں 
بس اب لے دے کے ہے ترکِ تعلق 
یہ نسخہ بھی کوئی دن آزمائیں


شاعر احمد مشتاق