Saturday 9 March 2013

کب یاروں کو تسلیم نہیں ، کب کوئی عدو انکاری ہے

0 comments
کب یاروں کو تسلیم نہیں ، کب کوئی عدو انکاری ہے 
اس کوئے طلب میں ہم نے بھی دل نذر کیا جاں واری ہے 
جب ساز سلاسل بجتے تھے ، ہم اپنے لہو میں سجتے تھے 
وہ رِیت ابھی تک باقی ہے ، یہ رسم ابھی تک جاری ہے 
کچھ اہلِ ستم ، کچھ اہلِ حشم مے خانہ گرانے آئے تھے 
دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے 
جب پرچمِ جاں لیکر نکلے ہم خاک نشیں مقتل مقتل 
اُس وقت سے لے کر آج تلک جلاد پہ ہیبت جاری ہے 
زخموں سے بدن گلزار سہی پر ان کے شکستہ تیر گنو 
خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے 
کس زعم میں‌ تھے اپنے دشمن شاید یہ انہیں معلوم نہیں 
یہ خاکِ وطن ہے جاں اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے


شاعر احمد فراز

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔